Brailvi Books

صحابیات اور پردہ
2 - 55
خاتون کو وِیرانے میں پیدل سفر کرتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے شک گزرا کہ یقیناً یہ عِفَّت مآب خاتون انہی مسلمانوں میں سے ہو گی جنہیں اَہلِ مکہ نے مدینہ جانے سے روک رکھا ہے۔ تفتیشِ حال پر جب اس خاتون نے بھی اس شخص کے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا فَرد ہونے کی وجہ سے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ واقعی سُوئے مدینہ رَواں ہے تو اس شخص کے دِل نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اس عاشقہ کو یوں تنہا سفر کرنے دے۔چنانچہ  اس نے اپنا سفر مَوقُوف کیا اور اپنا اُونٹ اس باپردہ خاتون کو پیش کر کے مدینہ پہنچانے کا عَزْمِ مُصَمَّم (پختہ ارادہ)کر لیا اور یوں شرم و حَیا کی پیکر اس باپردہ خاتون نے بھی اسے غیبی اِمداد سمجھ کر قبول کر لیا۔ 
یوں ایک ایسا خاموش سفر شروع ہوا جس نے تاریخ کے اَوراق میں وہ سنہری یادیں چھوڑیں جس پر آج بھی بلاشبہ رَشک کیا جاسکتا ہے۔ عشقِ سرکار میں مُضْطَرِب ہو کر تن تنہا سُوئے مدینہ رَخْتِ سفر باندھنے والی اس باپردہ خاتون کی ہِمَّت کے کیا کہنے! وہ خود اپنے اس سفر کی داستان کچھ یوں سناتی ہیں کہ دورانِ سفر اس شخص نے راستے بھر مجھ سے کوئی کلام نہ کیا، بلکہ جب آرام کا وَقْت ہوتا تو وہ اُونٹ کو بٹھا کر دُور ہٹ جاتا اور میں کجاوے سے نکل کر کسی سایہ دار درخت کے نیچے ہوجاتی، پھر وہ اُونٹ کو مجھ سے دُور کسی اور درخت کے نیچے باندھ دیتا اور خود بھی وہیں کہیں آرام